30-10-2024
معروف افسانہ نگار اخلاق احمد نے کہا ہے کہ ادبی رسائل معاشرے میں ادب کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، معاشرے میں احساس پیدا کرتے ہیں
معروف افسانہ نگار اخلاق احمد نے کہا ہے کہ ادبی رسائل معاشرے میں ادب کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، معاشرے میں احساس پیدا کرتے ہیں اور انسانی سوچ و فکر کا دائرہ وسیع کرتے ہیں تاہم انہوں نے ادبی رسائل کی موجودہ صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل قریب میں یہ ناپید ہوجائیں گے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے چاک ادبی فورم کے زیر اہتمام پروگرام چاک ادبی عدالت کے جج کی حیثیت سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سابق چیئرمین شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر اوج کمال نے کہا کہ سماج کے لیے رسائل کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا فرد کے لیے تازہ ہوا کا، رسائل ذہنی زندگی کو متحرک کرتے ہیں، نئے افکار کی تخلیق میں مدد دیتے ہیں، غور کیا جائے تو ہر سماجی، سیاسی،علمی، دینی اور ثقافتی تحریک کو جنم دینے اور آگے بڑھانے میں رسائل کی کار فرمائی نظرآئے گی، اردو ادب رسائل ہی کے توسط اور وسیلے سے خیالات جدید رجحانات، تازہ فکری زاویوں اور نئے اسالیب بیان سے روشناس ہوا۔ ادبی، علمی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں یورپ کی پیشرفت اور مغرب کی ذہنی میلانات سے متعارف کرانے میں بھی اردو سائل نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ترجمے کو فروغ دیا جس سے دوسری زبانوں کے شہ پارے اردو میں منتقل کرنے کے محرک رسائل ہی بنے، چاک ادبی فورم کی چیئرپرسن اور معروف افسانہ نگار صائمہ صمیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چاک ادبی عدالت کے اغراض و مقاصد بیان کیے، انہوں نے کہا کہ ہم کراچی میں علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور خصوصی افسانے کے فروغ کے لئے بھرپور کاوشیں کر رہے ہیں اور گزشتہ سالوں کی طرح اس سال تیسری چاک اردو افسانہ کانفرنس 15 اور 16 نومبر کو کراچی میں منعقد کی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ملک سے بھی افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس کانفرنس میں شرکت کرے گی، اس موقع پر ادبی عدالت میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دینے والوں میں ادبی رسائل کے مدیران شامل تھے جن میں سرفہرست ڈاکٹر اوج کمال، مدیر ماہ نامہ دنیائے ادب کراچی، سابق چیئرمین، شعبہ ابلاغ عامہ، وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی، ماہ نامہ آنچل، حجاب اور نئے افق کے مدیر طاہر قریشی اور ماہ نامہ سرگزشت کے مدیر اعلیٰ پرویز بلگرامی شامل تھے، ادبی عدالت کے پینل میں معروف افسانہ نگار رحمان نشاط اور معروف ناول نگار گل بانو شامل تھے، پینل کی جانب سے جو سوالات کیے گئے ان میں اہم سوال ادبی رسائل کا ادب کو فروغ دینے میں کردار، ادبی رسائل کے معاشرے پر اثرات اورموجودہ دور میں ادبی رسائل کی صورتحال سے متعلق سوالات شامل تھے جبکہ جوابات دینے والے پینل کے نمائندوں نے اپنے جریدے کی موجودہ صورتحال کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے ادبی رسائل کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا جبکہ پینل نے بہت برد باری سے ان کے دانشورانہ جوابات دیئے، تقریب میں شہر کے معروف قلمکاروں اصغر خان، نسیم انجم، عفت نوید، شاہانہ جاوید، یاسمین یاس، میم مغل اورافروز رضوی، یمنیٰ احمد، لبنیٰ خیال، شاہد محی الدین، آصف انصاری، جاوید بھائی، سلیم احمد، نشاط یاسمین، عبدالغفور کھتری، منصور ساحر اور دیگرقلمکار شامل تھے۔ چاک ادبی عدالت اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا جسے علمی و ادبی حلقوں میں خوب سراہا گیا ہے اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ آئندہ دیگر ادبی موضوعات بھی عدالت میں لائے جائیں گے۔